بے کیف شامیں :::تحریر :::قادر بخش بلوچ

 

سو برس قبل دنیا کے نقشے پر کافی اتل پتل تھی۔ تاریخ کا مطالعہ کرنے پر حیرت ہوتی ہے۔ اُس وقت ایران ایک طاقتور ملک تھا۔ ایرانی پاسپورٹ کے حامل افراد خلیج فارس کے تمام ممالک میں بغیر ویزا داخل ہو سکتے تھے۔ خلیج عرب کے اکثر ممالک کی پہچان خلیج فارس سے ہوتی تھی۔ ہر چند ان پر راج تاجِ برطانیہ کا تھا، لیکن ایران لاڈلہ کی حیثیت رکھتا تھا۔

 

ستر کی دہائی تک ایرانی بود و باش یورپی طرز کا تھا، ایران کے علاوہ بلوچستان کے ساتھ منسلک علاقوں کے حالات بھی مستحکم تھے۔ ایران انتہائی خوشحال تھا، جبکہ خلیج فارس کے ممالک اور ان کے رعایا تنگ دستی کا شکار تھے۔ پھر اچانک امریکہ کے تعلقات ایران سے خراب ہو گئے۔ یہی وہ وقت تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے ہنری کسنجر کو "سفید ہاتھی” سے تشبیہ دی تھی۔ تقدیر نے محمد رضا شاہ اور بھٹو کی نظریں ملائی، اور بظاہر یہیں سے جنوبی ایشیا کے حالات نے پلٹا کھایا۔

 

ایران اجڑ گیا اور خلیج فارس نے نئی انگڑاہیاں لیں۔ خلیج فارس کی قسمت بدل گئی، نئے نام اور دولت کی فراوانی نے اسے بدل کر رکھ دیا۔ ستر کے اواخر میں جب تاجِ برطانیہ کا آخری دستہ عرب امارات سے واپس چلا گیا، تو اگلے روز ایرانی فوج نے جزیرہ ابو موسی کا کنٹرول سنبھال لیا، جو برطانیہ کے دور میں عرب امارات کا حصہ تھا۔ یہ ایران کی آخری دراندازی تھی۔ اس کے بعد ایران ایران نہ رہا۔

 

بھٹو کے بعد مملکت خداداد میں استحکام نہیں آیا۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو ایک مضبوط رہنما تھے، بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے میں ان کا بڑا ہاتھ تھا۔ انتخابات ہوتے رہے، لیکن حالات سازگار نہ ہوئے۔ بلوچستان میں کئی حکومتیں آئیں اور گئیں، مگر من پسند حکومت قائم نہیں ہو سکی۔

 

جب دو ہزار تیرہ میں ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزارتِ اعلیٰ ملی، تو یہ ملکی تاریخ کا ایک نیا موقع تھا۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے پورے صوبے میں عملی طور پر عوامی حکومت قائم کی۔ اس سے پہلے بلوچستان کے حالات انتہائی خراب تھے، مگر چونکہ ڈاکٹر صاحب عوامی آدمی تھے، انہوں نے صوبے کو بہترین انداز میں چلایا۔ اس وقت جان بلیدی صاحب صوبائی حکومت کے ترجمان تھے۔

 

جان بلیدی نے جس ماہرانہ انداز میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں، وہ بلوچستان کے عوام کی امنگوں کے عین مطابق تھے۔ یہ بلوچستان کی تاریخ کا بہترین دور تھا۔ ہنوز جان بلیدی ایوانِ بالا کے رکن ہیں۔ بلیدی صاحب بلوچستان کے جملہ مسائل کے حل میں کوشاں ہیں، اور اہلِ بلوچستان کو یقین ہے کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوں گے۔

 

سینیٹر جان بلیدی جو تجاویز حکام کو دیتے ہیں، اگر ان پر عملدرآمد کیا جائے تو بعید نہیں کہ بلوچستان کے مسائل حل نہ ہوں۔ بلوچستان کے مسائل کو بلوچ رہنما جانتے ہیں، اور جان بلیدی نہ صرف ان مسائل سے آگاہ ہیں بلکہ ان کے حل سے بھی واقف ہیں۔ اربابِ اختیار کو چاہیے کہ وہ سینیٹر جان بلیدی صاحب کے افکار پر عمل کریں، کیونکہ سینیٹر صاحب بلوچستان کے بے داغ رہنما ہیں۔

Spread the love

Check Also

بے کیف شامیںق ::تحریر::::ادربخش بلوچ

  سو برس قبل دنیا کے نقشے پر کافی اتل پتل تھی۔ تاریخ کا مطالعہ …

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے